Skip to main content

ABNORMAL KI DIARY



abnormal ki diary page 1-43



<script async src="//pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
<script>
     (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({
          google_ad_client: "ca-pub-7943756676228785",
          enable_page_level_ads: true
     });
</script>






























































































































































Comments

  1. You have done great work but it would b easy to read and download if you can put them as pdf or zip file.

    ReplyDelete
    Replies
    1. I couldn't scan it in a single file

      Delete
    2. This comment has been removed by a blog administrator.

      Delete
  2. Can you please WhatsApp me these snaps ?? I'll be very thankful to you...

    ReplyDelete
  3. This comment has been removed by a blog administrator.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے تو نہیں نہیں کہا کرے..

ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ، ﻋﺸﻖ ﮈﮬﻮﻧﮓ ﮨﮯ ..میں نے کہا تجھے عشق ہوخداکرے   کوئی تجھکواس سےجداکرے تیرےہونٹ ہنسنابھول جائیں تیری آنکھ پرنم رہاکرے تواس کی باتیں کیا کرے تواسکی باتیں سناکرے اسےدیکھکرتورک جائے وہ نظرجھکاکے چلا کرے تجھےہجرکی ایسی جھڑک لگے توملن کی ہرپل دعا کرے تیرےخواب بکھریں ٹوٹ کر توکرچی کرچی چناکرے تو گلی گلی صدا کرے تیرے سامنے تیراگھر جلے نہ بس چلے نہ بجھا سکے تیرےدل سےیہی دعانکلے نہ کسی کو کوئی جدا کرے تجھےعشق ہوپھریقین ہو میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے تو نہیں نہیں کہا کرے

جون ایلیا , اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

جون ایلیا مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟ اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم اپنا گھر بھول گئے ، ان کی گلی بھول گئے کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا, jaun elia

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے گناہ ترک بادہ کر لیا کیا یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا   بہت نزدیک آتی جا رہی ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا Read more from the book , order now at  HER WRITINGS