بہت دل کو کشادہ کر لیا کیازمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا
تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لیتو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا
ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہمری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا
جو یکسر جان ہے اس کے بدن سےکہو کچھ استفادہ کر لیا کیا
بہت کترا رہے ہو مغبچوں سےگناہ ترک بادہ کر لیا کیا
یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیںسفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا
اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تکبہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا
تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیںبدن کو بے لبادہ کر لیا کیا
بہت نزدیک آتی جا رہی ہوبچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
Read more from the book , order now at HER WRITINGS
Comments
Post a Comment