Skip to main content

ایک زمین , مرزا اسد اللہ غالبؔ



درد سے میرے ہے تُجھ کو بے قراری ہائے ہائےکیا ہُوئی ظالِم تِری غفلت شِعاری ہائے ہائےتیرے دِل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہتُو نے پِھر کیوں کی تھی میری غم گُساری ہائے ہائےکیوں مِری غم خوارگی کا تُجھ کو آیا تھا خیالدُشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائےعُمر بھر کا تُو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیاعُمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائےزہر لگتی ہے مُجھے آب و ہوائے زِندگییعنی تُجھ سے تھی اِسے نا سازگاری ہائے ہائےگُل فِشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیاخاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائےشرمِ رُسوائی سے جا چُھپنا نقابِ خاک میںختم ہے اُلفت کی تُجھ پر پردہ داری ہائے ہائےخاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مِل گئیاُٹھ گئی دُنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائےہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہادِل پہ اِک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائےکِس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشکالہے نظر خُو کردہء اختر شُماری ہائے ہائےگوش مَہجُورِ پیام و چشم محرُومِ جمالایک دِل تِس پر یہ نا اُمیدواری ہائے ہائےگر مُصیبت تھی تو غُربت میں اُٹھا لیتا اسدؔمیری دِلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائےعِشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگرہ گیا تھا دِل میں جو کُچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے۔۔۔!
ہم نے کیسے بے وفا سے کی ہے یاری ہاۓ ہاۓاِس خطا پر جان جاۓ گی ہماری ہاۓ ہاۓبہہ گیا پانی کی صُورت سب میرا خُونِ جِگردِل نے کی آنکھوں سے ایسی اشک باری ہاۓ ہاۓپھُول برسانے تھے جِس پہ راہء عِشق میںکی اُسی نے آج مُجھ پہ سنگ باری ہاۓ ہاۓہم تو سمجھے تھے وہ آئیں گے تو آۓ گا قراربڑھ گئی ہے اور دِل کی بے قراری ہاۓ ہاۓرہ گئی تھی منزِل مقصُود دو چار گاماُس جگہ بازی میری قِسمت نے ہاری ہاۓ ہاۓاِک طرف ہے بے خودی اور اِک طرف جوشِ جُنُوںکیفیت ہے عِشق کی دونوں پہ طاری ہاۓ ہاۓہو گیا اُس سے بِچھڑ کر اپنے غم میں مُبتلاہوسکی نہ مُجھ سے اُس کی غمگُساری ہاۓ ہاۓیاد بھی بھُولے سے میری اب اُس کو آتی نہیںاُٹھ گئی دُنیا سے راہ و رسمِ یاری ہاۓ ہاۓشاخِ گُل سمجھا تھا مَیں اُس کے حِنائ ہاتھ کونیم چہ ہے یہ تو تلواروں پہ بھاری ہاۓ ہاۓ۔۔۔!

Comments

Popular posts from this blog

میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے تو نہیں نہیں کہا کرے..

ﺍُﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ، ﻋﺸﻖ ﮈﮬﻮﻧﮓ ﮨﮯ ..میں نے کہا تجھے عشق ہوخداکرے   کوئی تجھکواس سےجداکرے تیرےہونٹ ہنسنابھول جائیں تیری آنکھ پرنم رہاکرے تواس کی باتیں کیا کرے تواسکی باتیں سناکرے اسےدیکھکرتورک جائے وہ نظرجھکاکے چلا کرے تجھےہجرکی ایسی جھڑک لگے توملن کی ہرپل دعا کرے تیرےخواب بکھریں ٹوٹ کر توکرچی کرچی چناکرے تو گلی گلی صدا کرے تیرے سامنے تیراگھر جلے نہ بس چلے نہ بجھا سکے تیرےدل سےیہی دعانکلے نہ کسی کو کوئی جدا کرے تجھےعشق ہوپھریقین ہو میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے تو نہیں نہیں کہا کرے

جون ایلیا , اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے

جون ایلیا مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟ اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم اپنا گھر بھول گئے ، ان کی گلی بھول گئے کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا, jaun elia

بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو خود اپنے کو آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا جو یکسر جان ہے اس کے بدن سے کہو کچھ استفادہ کر لیا کیا بہت کترا رہے ہو مغبچوں سے گناہ ترک بادہ کر لیا کیا یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں سفر جادہ بہ جادہ کر لیا کیا اٹھایا اک قدم تو نے نہ اس تک بہت اپنے کو ماندہ کر لیا کیا تم اپنی کج کلاہی ہار بیٹھیں بدن کو بے لبادہ کر لیا کیا   بہت نزدیک آتی جا رہی ہو بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا Read more from the book , order now at  HER WRITINGS